ملال ہوتے ہوئے دل پہ کچھ ملال نہیں
خیال دوست سے اچھا کوئی خیال نہیں
جسے زوال نہ ہو وہ کوئی کمال نہیں
کمال غم کو ہمارے مگر زوال نہیں
جفائیں کر کے جو وہ سست سست بیٹھے ہیں
انہیں ملال یہ ہے مجھ کو کچھ ملال نہیں
یہ کیا نہیں نگۂ فتنہ ساز تیری کمی
ہمارے جذبۂ غم میں اب اشتعال نہیں
کہو غموں سے کہ بے فکر اب دلوں میں رہیں
خوشی کا آج کی دنیا میں احتمال نہیں
یہ اور بات ترس ہی نہ ہو کسی دل میں
چھپا ہوا تو زمانہ سے میرا حال نہیں
گری جو برق تو اپنا بنا رہا ہے مجھے
یہ کیا ہے اشکؔ اگر باغباں کی چال نہیں

غزل
ملال ہوتے ہوئے دل پہ کچھ ملال نہیں
سید محمد ظفر اشک سنبھلی