مکتب کی عاشقی بھی تاریخ زندگی تھی
فاضل تھا گھر سے مجنوں لیلیٰ پڑھی لکھی تھی
فرہاد جان دے گا شیریں تباہ ہوگی
یہ تو خدا کے گھر سے گویا کہی بدی تھی
قدرت کے دائرے میں اس وقت بت بنے تھے
جب نعمت تکلم تقسیم ہو چکی تھی
کعبے میں ہم نے جا کے کچھ اور حال دیکھا
جب بت کدہ میں پہنچے صورت ہی دوسری تھی
ماتم میں میرے مضطرؔ وہ کس ادا سے آیا
آنکھوں میں کچھ نمی تھی ہونٹوں پہ کچھ ہنسی تھی
غزل
مکتب کی عاشقی بھی تاریخ زندگی تھی
مضطر خیرآبادی