EN हिंदी
مکر حیات رخ کی قبا بھی اتار دی | شیح شیری
makr-e-hayat ruKH ki qaba bhi utar di

غزل

مکر حیات رخ کی قبا بھی اتار دی

فرحان سالم

;

مکر حیات رخ کی قبا بھی اتار دی
ہم نے تڑپ تڑپ کے یہ شب بھی گزار دی

اب ہم پہ خاک دیکھیے کس دشت کی پڑے
یاں تو اذان صبح سر اوج دار دی

اب تم کرو سراغ جمال بتاں تلاش
ہم نے تمہیں امانت چشم و عذار دی

دیکھی ہیں یوں بھی چارہ گروں کی کرامتیں
زخم لہو لہو کو دوا خار خار دی

یوں بھی کیا ہے ہم نے حق دلبری ادا
اپنی ہی جیت اپنے ہی ہاتھوں سے ہار دی

سالمؔ خوشا ہے اس کو بہت تجھ پہ اعتماد
جس نے تجھے اذیت دل بے شمار دی