مجبور ہوں گناہ کئے جا رہا ہوں میں
فرد عمل سیاہ کئے جا رہا ہوں میں
گو جانتا بھی ہوں ترا ملنا محال ہے
اس پر بھی تیری چاہ کئے جا رہا ہوں میں
تیرا فریب وعدہ بہت کامیاب ہے
آنکھوں کو فرش راہ کئے جا رہا ہوں میں
تقسیم ہو رہی ہے مری وسعت نظر
ذروں کو مہر و ماہ کئے جا رہا ہوں میں
تیرا کرم ہی اس کا محرک نہ ہو کہیں
کیا جانے کیوں گناہ کئے جا رہا ہوں میں
مجھ کو خبر ہے شیخ تجھے کچھ خبر نہیں
کیوں زندگی تباہ کئے جا رہا ہوں میں
سیمابؔ دین سے بھی مرے دل کو عشق ہے
دنیا سے بھی نباہ کئے جا رہا ہوں میں
غزل
مجبور ہوں گناہ کئے جا رہا ہوں میں
سیماب بٹالوی