میں زندگی کا نقشہ ترتیب دے رہا ہوں
پھر اک جدید خاکہ ترتیب دے رہا ہوں
ہر ساز کا ترنم یکسانیت نما ہے
اک تازہ کار نغمہ ترتیب دے رہا ہوں
جس میں تری تجلی خود آ کے جا گزیں ہو
دل میں اک ایسا گوشہ ترتیب دے رہا ہوں
لمحوں کے سلسلے میں جیتا رہا ہوں لیکن
میں اپنا خاص لمحہ ترتیب دے رہا ہوں
کتنے عجیب قصے لکھے گئے ابھی تک
میں بھی انوکھا قصہ ترتیب دے رہا ہوں
ذروں کا ہے یہ طوفاں بے چہرگی بداماں
ذروں سے ایک چہرہ ترتیب دے رہا ہوں
دنیا کے سارے رشتے بے معنی لگ رہے ہیں
خالق سے اپنا رشتہ ترتیب دے رہا ہوں
پر پیچ راستوں پر چلتا ہوا ظفرؔ میں
سیدھا سا ایک رستہ ترتیب دے رہا ہوں

غزل
میں زندگی کا نقشہ ترتیب دے رہا ہوں
ظفر حمیدی