میں زمیں ٹھہرا تو اس کو آسماں ہونا ہی تھا
آسماں ہو کر اسے نا مہرباں ہونا ہی تھا
پیاس کی تحریر سے تو یہ عیاں ہونا ہی تھا
بے نشاں باطل تو حق کو جاوداں ہونا ہی تھا
روح کی تجسیم سے ممکن ہوئی ہے زندگی
لا مکاں کے واسطے بھی اک مکاں ہونا ہی تھا
وہ گنہ کی سرزمیں پر جنتوں کا خواب تھا
اس طرح کے خواب کو تو رائیگاں ہونا ہی تھا
کب تھی فردوس بریں میں لذت لطف گنہ
اس زمیں کی جستجو میں کچھ زیاں ہونا ہی تھا
بے نشاں رستوں پہ اب تک گامزن ہے یہ زمیں
اس لیے بھی آسماں کو بے کراں ہونا ہی تھا
میں چلا تھا رات کو بھی دن بنانے کے لیے
سر پہ میرے دھوپ کو پھر سائباں ہونا ہی تھا

غزل
میں زمیں ٹھہرا تو اس کو آسماں ہونا ہی تھا
اسحاق وردگ