میں زخم زخم رہوں روح کے خرابوں سے
تو جسم جسم دہکتا رہے گلابوں سے
کسی کی چال نے نشے کا رس کشید کیا
کسی کا جسم تراشا گیا شرابوں سے
صبا کا ہاتھ ہے اور ہے ترے گداز کا لمس
میں جاگتا ہی رہوں گرم گرم خوابوں سے
قدم قدم ہے چکا چوند چاہتوں کا چراغ
میں شہر آئنہ جلتا ہوں آفتابوں سے
عطاؔ بدن کی یہ کروٹ بھی نیم شب کیا تھی
تمام عمر اجلتا ہوں انقلابوں سے
غزل
میں زخم زخم رہوں روح کے خرابوں سے
عطا شاد