میں یوں تو خواب کی تعبیر سوچتا بھی نہیں
مگر وہ شخص مرے رت جگوں کا تھا بھی نہیں
مرا نصیب وہ سمجھا نہ بات اشاروں کی
مرا مزاج کہ میں صاف کہہ سکا بھی نہیں
بڑی گراں ہے مری جاں یہ کیفیت مت پوچھ
کہ ان لبوں پہ گلہ بھی نہیں دعا بھی نہیں
یہ زندگی کے تعاقب میں روز کا پھرنا
اگرچہ اس طرح جینے کا حوصلہ بھی نہیں
یہ بے نیاز طبیعت یہ بے خودی کے رنگ
ہم اپنے آپ سے خوش بھی نہیں خفا بھی نہیں
اس ایک شکل کو جس دن سے کھو دیا ہے اسدؔ
مرے دریچے سے اب چاند جھانکتا بھی نہیں
غزل
میں یوں تو خواب کی تعبیر سوچتا بھی نہیں
سبحان اسد