EN हिंदी
میں یہ نہیں کہتا کہ مرا سر نہ ملے گا | شیح شیری
main ye nahin kahta ki mera sar na milega

غزل

میں یہ نہیں کہتا کہ مرا سر نہ ملے گا

وسیم بریلوی

;

میں یہ نہیں کہتا کہ مرا سر نہ ملے گا
لیکن مری آنکھوں میں تجھے ڈر نہ ملے گا

سر پر تو بٹھانے کو ہے تیار زمانہ
لیکن ترے رہنے کو یہاں گھر نہ ملے گا

جاتی ہے چلی جائے یہ مے خانے کی رونق
کم ظرفوں کے ہاتھوں میں تو ساغر نہ ملے گا

دنیا کی طلب ہے تو قناعت ہی نہ کرنا
قطرے ہی سے خوش ہو تو سمندر نہ ملے گا