میں یہ نہیں کہتا کہ مرا سر نہ ملے گا
لیکن مری آنکھوں میں تجھے ڈر نہ ملے گا
سر پر تو بٹھانے کو ہے تیار زمانہ
لیکن ترے رہنے کو یہاں گھر نہ ملے گا
جاتی ہے چلی جائے یہ مے خانے کی رونق
کم ظرفوں کے ہاتھوں میں تو ساغر نہ ملے گا
دنیا کی طلب ہے تو قناعت ہی نہ کرنا
قطرے ہی سے خوش ہو تو سمندر نہ ملے گا
غزل
میں یہ نہیں کہتا کہ مرا سر نہ ملے گا
وسیم بریلوی