میں یہاں شور کس لئے کرتا
دھر لیا جاؤں گا یہ امکاں تھا
دیکھیے رخ ہوا کا کب ٹھہرے
آ گیا لے کے وہ دیا جلتا
پیڑ پودے تو خوف کھاتے ہیں
گھاس پر اس کا بس نہیں چلتا
اڑ گیا آخرش میں کمرے سے
کب تلک جیتے جی یہاں مرتا
میرے اندر جو ڈھونڈھتا تھا مجھے
اس سے کٹ کر میں مل چکا کب کا
خواب دے کر یہ پھول لایا ہوں
کہئے مہنگا ملا ہے یا سستا
عید کا دن تو ہے مگر جعفرؔ
میں اکیلے تو ہنس نہیں سکتا

غزل
میں یہاں شور کس لئے کرتا
جعفر ساہنی