EN हिंदी
میں یہاں شور کس لئے کرتا | شیح شیری
main yahan shor kis liye karta

غزل

میں یہاں شور کس لئے کرتا

جعفر ساہنی

;

میں یہاں شور کس لئے کرتا
دھر لیا جاؤں گا یہ امکاں تھا

دیکھیے رخ ہوا کا کب ٹھہرے
آ گیا لے کے وہ دیا جلتا

پیڑ پودے تو خوف کھاتے ہیں
گھاس پر اس کا بس نہیں چلتا

اڑ گیا آخرش میں کمرے سے
کب تلک جیتے جی یہاں مرتا

میرے اندر جو ڈھونڈھتا تھا مجھے
اس سے کٹ کر میں مل چکا کب کا

خواب دے کر یہ پھول لایا ہوں
کہئے مہنگا ملا ہے یا سستا

عید کا دن تو ہے مگر جعفرؔ
میں اکیلے تو ہنس نہیں سکتا