میں وہ نہیں کہ زمانے سے بے عمل جاؤں
مزاج پوچھ کے دار و رسن کا ٹل جاؤں
وہ اور ہوں گے جو ہیں آج قید بے سمتی
وہی ہے سمت میں جس سمت کو نکل جاؤں
فریب کھا کے جنوں عقل کے کھلونوں سے
خدا وہ وقت نہ لائے کہ میں بہل جاؤں
مرا وجود ہے مومی کہیں نہ ہو ایسا
کسی کی یاد کی گرمی سے میں پگھل جاؤں
جو چاہتا ہے کہ پستی میں گرتے گرتے بچوں
نظر کا اپنی عصا دے کہ میں سنبھل جاؤں

غزل
میں وہ نہیں کہ زمانے سے بے عمل جاؤں
ابراہیم ہوش