میں وہ دریا ہوں چڑھا ہو جو اترنے کے لئے
جی رہا ہوں میں یہاں ہم زاد مرنے کے لئے
چائے خانے کی نشستوں پر جریدوں کے ورق
پیڑ سے پتے جھڑے اڑنے بکھرنے کے لئے
ایک میں مد مقابل وسعت آفاق میں
اور ساری طاقتیں گمراہ کرنے کے لئے
حافظہ ویران ہونے کے لئے آباد تھا
نام کچھ ہونٹوں پہ آئے تھے بسرنے کے لئے
کارخانوں کو چلے انبوہ در انبوہ لوگ
جانور نکلے چراگاہوں میں چرنے کے لئے
روشنی میں خوف کا احساس تک ہوتا نہیں
کر دیا ہے آف ٹیبل لیمپ ڈرنے کے لئے

غزل
میں وہ دریا ہوں چڑھا ہو جو اترنے کے لئے
مراتب اختر