میں وہی دشت ہمیشہ کا ترسنے والا
تو مگر کون سا بادل ہے برسنے والا
سنگ بن جانے کے آداب سکھائے میں نے
دل عجب غنچۂ نورس تھا بکسنے والا
حسن وہ ٹوٹتا نشہ کہ محبت مانگے
خون روتا ہے مرے حال پہ ہنسنے والا
رنج یہ ہے کہ ہنر مند بہت ہیں ہم بھی
ورنہ وہ شعلۂ عصیاں تھا جھلسنے والا
وہ خدا ہے تو مری روح میں اقرار کرے
کیوں پریشان کرے دور کا بسنے والا
غزل
میں وہی دشت ہمیشہ کا ترسنے والا
ساقی فاروقی