EN हिंदी
میں اس کو بھول گیا تھا وہ یاد سا آیا | شیح شیری
main usko bhul gaya tha wo yaad sa aaya

غزل

میں اس کو بھول گیا تھا وہ یاد سا آیا

سلیم احمد

;

میں اس کو بھول گیا تھا وہ یاد سا آیا
زمیں ہلی تو میں سمجھا کہ زلزلہ آیا

پھر اس کے بعد کئی راستے کئی گھر تھے
وہ موڑ تک مجھے رک رک کے دیکھتا آیا

میں اس کو ڈھونڈنے نکلا تو میرے جانے کے بعد
گلی گلی مجھے گھر تک وہ پوچھتا آیا

جدا ہوئے تو زمان و مکاں کے بعد کے ساتھ
جو راہ میں تھا دلوں میں وہ فاصلہ آیا

میں آئینہ تو نہیں ہوں پہ ایک سوچ میں ہوں
تو خود نمائی کے جوہر کہاں چھپا آیا

سلیمؔ ترک رہ و رسم ترک عشق نہیں
جدھر سے گزرے ادھر اس کا راستہ آیا