میں اس کی بات کی تردید کرنے والا تھا
اک اور حادثہ مجھ پر گزرنے والا تھا
کہیں سے آ گیا اک ابر درمیاں ورنہ
مرے بدن میں یہ سورج اترنے والا تھا
مجھے سنبھال لیا تیری ایک آہٹ نے
سکوت شب کی طرح میں بکھرنے والا تھا
عجیب لمحۂ کمزور سے میں گزرا ہوں
تمام سلسلہ پل میں بکھرنے والا تھا
میں لڑکھڑا سا گیا سایۂ شجر میں ضرور
میں راستے میں مگر کب ٹھہرنے والا تھا
اب آسماں بھی بڑا شانت ہے زمیں بھی سکھی
گزر گیا ہے جو ہم پر گزرنے والا تھا
لگا جو پیٹھ میں آ کر وہ تیر تھا کس کا
میں دشمنوں کی صفوں میں نہ مرنے والا تھا
غزل
میں اس کی بات کی تردید کرنے والا تھا
راجیندر منچندا بانی