میں اس درخت کا بس آخری ہی پتہ تھا
جسے ہمیشہ ہوا کے خلاف لڑنا تھا
میں زندگی میں کبھی اس قدر نہ بھٹکا تھا
کہ جب ضمیر مجھے رستہ دکھاتا تھا
مشین بن تو چکا ہوں مگر نہیں بھولا
کہ میرے جسم میں دل بھی کبھی دھڑکتا تھا
وہ بچہ کھو گیا دنیا کی بھیڑ میں کب کا
حسین خوابوں کی جو تتلیاں پکڑتا تھا
پھر اس کے بعد پرندوں پہ جانے کیا گزری
میں ایک پیڑ کی شاخوں کو کاٹ آیا تھا
تمام عمر وہ آیا نہیں زمیں پہ کبھی
ہوا میں اس نے جو سکہ جو کبھی اچھالا تھا
مرا وجود بھی شامل تھا اس کی مٹی میں
مرا بھی کھیت کی فصلوں میں کوئی حصہ تھا
نہ جنے کتنی سرنگیں نکل گئیں اس سے
کھڑا پہاڑ بھی تو آنکھ کا ہی دھوکہ تھا
جو بات بات پہ کھاتا رہا خدا کی قسم
قسم خدا کی وہی آدمی تو جھوٹا تھا
پتہ کرو کہ ابھی وہ بڑا ہوا کہ نہیں
بڑے درخت کے نیچے جو ننھا پودا تھا
اس ایک شعر پہ آنکھیں چمک اٹھی اس کی
وہ شعر جس میں کہ روٹی کا ذکر آیا تھا
ہماری زندگی تھی اک تلاش پانی کی
جہاں پہ ریت کا دویجؔ ایک چھنتا دریا تھا
غزل
میں اس درخت کا بس آخری ہی پتہ تھا
دوجیندر دوج