میں تم کو پوجتا رہا جب تک خودی میں تھا
اپنا ملا سراغ مجھے بے خودی کے بعد
کیا رسم احتیاط بھی دنیا سے اٹھ گئی
یہ سوچنا پڑا مجھے تیری ہنسی کے بعد
گھبرا کے مر نہ جائیے مرنے سے فائدہ
اک اور زندگی بھی ہے اس زندگی کے بعد
آئے ہیں اس جہاں میں تو جانا ضرور ہے
کوئی کسی سے پہلے تو کوئی کسی کے بعد
اے ابر نو بہار ٹھہر پی رہا ہوں میں
جانا برس کے خوب مری مے کشی کے بعد
مرتے تھے جس پہ ہم وہ فقط حسن ہی نہ تھا
یہ راز ہم پہ آج کھلا عاشقی کے بعد
اے موسم بہار ٹھہر آ رہا ہوں میں
دامان چاک چاک کی بخیہ گری کے بعد
غزل
میں تم کو پوجتا رہا جب تک خودی میں تھا (ردیف .. د)
میر یٰسین علی خاں