میں تم کو بھول بھی سکتا ہوں اس جہاں کے لئے
ذرا سا جھوٹ ضرور ہے داستاں کے لئے
مرے لبوں پہ کوئی بوند ٹپکی آنسو کی
یہ قطرہ کافی تھا جلتے ہوئے مکاں کے لئے
میں کیا دکھاؤں مرے تار تار دامن میں
نہ کچھ یہاں کے لئے ہے نہ کچھ وہاں کے لئے
غزل بھی اس طرح اس کے حضور لایا ہوں
کہ جیسے بچہ کوئی آئے امتحاں کے لئے
غزل
میں تم کو بھول بھی سکتا ہوں اس جہاں کے لئے
بشیر بدر