EN हिंदी
میں تو تنہا تھا مگر تجھ کو بھی تنہا دیکھا | شیح شیری
main to tanha tha magar tujhko bhi tanha dekha

غزل

میں تو تنہا تھا مگر تجھ کو بھی تنہا دیکھا

جمیل ملک

;

میں تو تنہا تھا مگر تجھ کو بھی تنہا دیکھا
اپنی تصویر کے پیچھے ترا چہرا دیکھا

جس کی خوشبو سے مہک جائے شبستان وصال
دوستو تم نے کبھی وہ گل صحرا دیکھا

اجنبی بن کے ملے دل میں اترتا جائے
شہر میں کوئی بھی تجھ سا نہ شناسا دیکھا

اب تو بس ایک ہی خواہش ہے کہ تجھ کو دیکھیں
ساری دنیا میں پھرے اور نہ کیا کیا دیکھا

کوئی صورت بھی شناسا نظر آئی نہ ہمیں
گھر سے نکلے تو عجب شہر کا نقشہ دیکھا

اس قدر دھوپ تھی سنولا گئے رخشاں چہرے
جلتے سورج کا مگر رنگ بھی پیلا دیکھا

پیڑ کا دکھ تو کوئی پوچھنے والا ہی نہ تھا
اپنی ہی آگ میں جلتا ہوا سایہ دیکھا

تھے اندھیروں کے تعاقب میں اجالے کیا کیا
خود تماشہ تھے جمیلؔ اور تماشہ دیکھا