میں تو تنہا تھا مگر تجھ کو بھی تنہا دیکھا
اپنی تصویر کے پیچھے ترا چہرا دیکھا
جس کی خوشبو سے مہک جائے شبستان وصال
دوستو تم نے کبھی وہ گل صحرا دیکھا
اجنبی بن کے ملے دل میں اترتا جائے
شہر میں کوئی بھی تجھ سا نہ شناسا دیکھا
اب تو بس ایک ہی خواہش ہے کہ تجھ کو دیکھیں
ساری دنیا میں پھرے اور نہ کیا کیا دیکھا
کوئی صورت بھی شناسا نظر آئی نہ ہمیں
گھر سے نکلے تو عجب شہر کا نقشہ دیکھا
اس قدر دھوپ تھی سنولا گئے رخشاں چہرے
جلتے سورج کا مگر رنگ بھی پیلا دیکھا
پیڑ کا دکھ تو کوئی پوچھنے والا ہی نہ تھا
اپنی ہی آگ میں جلتا ہوا سایہ دیکھا
تھے اندھیروں کے تعاقب میں اجالے کیا کیا
خود تماشہ تھے جمیلؔ اور تماشہ دیکھا
غزل
میں تو تنہا تھا مگر تجھ کو بھی تنہا دیکھا
جمیل ملک