میں تو سو بار ترے ملنے کو آیا تنہا
لیکن افسوس کبھی تجھ کو نہ پایا تنہا
شرک سے خالی کسی کا نہ نظر آیا دل
وہ بڑے ظرف ہیں جن میں تو سمایا تنہا
کس کو دعویٰ نہیں الفت کا تری عالم میں
عاشقوں میں ترے میں ہی نہ کہایا تنہا
بند کاکل میں ترے جی بھی ہمارا ہے اسیر
دام میں زلف کے دل ہی نہ پھنسایا تنہا
کل جہاں دارؔ ہم اور یار تھے ٹک مل بیٹھے
بخت ناساز نے پھر آج بٹھایا تنہا
غزل
میں تو سو بار ترے ملنے کو آیا تنہا
مرزا جواں بخت جہاں دار