EN हिंदी
میں تو سو بار ترے ملنے کو آیا تنہا | شیح شیری
main to sau bar tere milne ko aaya tanha

غزل

میں تو سو بار ترے ملنے کو آیا تنہا

مرزا جواں بخت جہاں دار

;

میں تو سو بار ترے ملنے کو آیا تنہا
لیکن افسوس کبھی تجھ کو نہ پایا تنہا

شرک سے خالی کسی کا نہ نظر آیا دل
وہ بڑے ظرف ہیں جن میں تو سمایا تنہا

کس کو دعویٰ نہیں الفت کا تری عالم میں
عاشقوں میں ترے میں ہی نہ کہایا تنہا

بند کاکل میں ترے جی بھی ہمارا ہے اسیر
دام میں زلف کے دل ہی نہ پھنسایا تنہا

کل جہاں دارؔ ہم اور یار تھے ٹک مل بیٹھے
بخت ناساز نے پھر آج بٹھایا تنہا