میں تو کہتا ہوں تمہی درد کے درماں ہو ضرور
اور وہ کہتے ہیں کہ تم آج پریشاں ہو ضرور
چمن شہر تو ویراں تھا مگر اس گھر میں
اتنی نکہت ہے کہ تم ایک گلستاں ہو ضرور
مجھ کو دکھلاؤ نہ اپنی یہ ادائے جلوہ
چلو تسلیم کہ تم مجھ میں بھی پنہاں ہو ضرور
میں کہ آوارہ طرب کوش شرابی لیکن
تم کہ مخلص ہو مری ذات پہ نازاں ہو ضرور
نظم و افسانہ لکھوں چپ رہوں یا بات کروں
تم بہ ہر رنگ مگر مجھ میں نمایاں ہو ضرور
ورنہ کیوں آنکھ میں آنسو ہوں بوقت دشنام
دشمنو تم بھی مری زیست کے خواہاں ہو ضرور
دوستوں میں تو کوئی تم کو نہ پوچھے گا سلامؔ
عظمت روشنیٔ بزم حریفاں ہو ضرور
غزل
میں تو کہتا ہوں تمہی درد کے درماں ہو ضرور
سلام ؔمچھلی شہری