میں تو اک لمحۂ پریدہ رہا
جانے کیوں وہ بہت کشیدہ رہا
رو بہ رو ذکر نا شنیدہ رہا
اٹھ گیا تو مرا قصیدہ رہا
میں بھی بندہ ہی تھا خدا کی قسم
یہ الگ ہے کہ برگزیدہ رہا
اور تو کوئی غم نہ تھا اس کو
بس مری چاہ میں تپیدہ رہا
شب کی پیشانی کا میں جھومر تھا
کیا ہوا گر ہوا گزیدہ رہا
میرے حصے میں اس صحیفے کا
اک ورق تھا وہی دریدہ رہا
کوئی امید بر نہ آتی تھی
زندگی بھر ستم رسیدہ رہا
غزل
میں تو اک لمحۂ پریدہ رہا
علی عباس امید