EN हिंदी
میں تو اک لمحۂ پریدہ رہا | شیح شیری
main to ek lamha-e-parida raha

غزل

میں تو اک لمحۂ پریدہ رہا

علی عباس امید

;

میں تو اک لمحۂ پریدہ رہا
جانے کیوں وہ بہت کشیدہ رہا

رو بہ رو ذکر نا شنیدہ رہا
اٹھ گیا تو مرا قصیدہ رہا

میں بھی بندہ ہی تھا خدا کی قسم
یہ الگ ہے کہ برگزیدہ رہا

اور تو کوئی غم نہ تھا اس کو
بس مری چاہ میں تپیدہ رہا

شب کی پیشانی کا میں جھومر تھا
کیا ہوا گر ہوا گزیدہ رہا

میرے حصے میں اس صحیفے کا
اک ورق تھا وہی دریدہ رہا

کوئی امید بر نہ آتی تھی
زندگی بھر ستم رسیدہ رہا