میں تشنہ تھا مجھے سر چشمۂ سراب دیا
تھکے بدن کو مرے پتھروں میں داب دیا
جو دسترس میں نہ تھا میری وہ ملا مجھ کو
بساط خاک سے باہر جہان خواب دیا
عجب کرشمہ دکھایا بہ یک قلم اس نے
ہوا چلائی سمندر کو نقش آب دیا
میں راکھ ہو گیا دیوار سنگ تکتے ہوئے
سنا سوال نہ اس نے کوئی جواب دیا
تہی خزانہ نفس تھا بچا کے کیا رکھتا
نہ اس نے پوچھا نہ میں نے کبھی حساب دیا
پھر ایک نقش کا نیرنگ زیبؔ بکھرے گا
مرے غبار کو پھر اس نے پیچ و تاب دیا
غزل
میں تشنہ تھا مجھے سر چشمۂ سراب دیا
زیب غوری