میں تری دسترس سے بہت دور تھا
پھر بھی نزدیک آنے پہ مجبور تھا
آج میں ہی سزاوار جور و ستم
کل تری مانگ کا میں ہی سندور تھا
کون آتا ہے یوں زیر دام ان دنوں
رات تاریک تھی آشیاں دور تھا
کچھ خلوص وفا پر بھی نادم تھا میں
اور کچھ دل کے زخموں سے بھی چور تھا
آئنہ دیکھ کر یوں ندامت ہوئی
میں کہ راحتؔ ہوں اب پہلے منصور تھا
غزل
میں تری دسترس سے بہت دور تھا
امین راحت چغتائی