میں تیری ہی آواز ہوں اور گونج رہا ہوں
اے دوست مجھے سن کہ میں گنبد کی صدا ہوں
جس راہ سے پہلے کوئی ہو کر نہیں گزرا
اس راہ پہ میں نقش قدم چھوڑ رہا ہوں
میں اپنے اصولوں کا گراں بار اٹھائے
ہر وقت ہواؤں کے مخالف ہی چلا ہوں
بے مایہ حبابو مجھے دیکھو کہ عدم سے
میں سوئے ابد سیل کی صورت میں بہا ہوں
ہر عصر کی تخلیق میں کچھ ہاتھ ہے میرا
میں وقت کے زنداں میں بھی آزاد رہا ہوں
صدیوں سے میں اپنے کو بنانے میں ہوں مصروف
بندہ ہوں مگر غور سے دیکھو تو خدا ہوں
حالات کی گردش سے ہراساں نہیں جاویدؔ
میں گردش افلاک کی گودی میں پلا ہوں
غزل
میں تیری ہی آواز ہوں اور گونج رہا ہوں
عبد اللہ جاوید