میں تیرے ظلم دکھاتا ہوں اپنا ماتم کرنے کے لیے
مری آنکھوں میں آنسو آئے تری آنکھیں نم کرنے کے لیے
مٹی سے ہوا منسوب مگر آتش خانہ سا جلتا ہوں
کئی سورج مجھ میں ڈوب گئے مرا سایہ کم کرنے کے لیے
وہ یاد کے ساحل پر سارے موتی بکھرائے بیٹھی تھی
اک لہر لہو میں اٹھی تھی مجھے تازہ دم کرنے کے لیے
آج اپنے زہر سے کاٹ دیا سب زنگ پرانے لفظوں کا
آئندہ کے اندیشوں کی تاریخ رقم کرنے کے لیے
ممکن ہے کہ اب بھی ہونٹوں پر کوئی بھولا بسرا شعلہ ہو
میں جلتے جلتے راکھ ہوا لہجہ مدھم کرنے کے لیے
غزل
میں تیرے ظلم دکھاتا ہوں اپنا ماتم کرنے کے لیے
ساقی فاروقی