میں سنتا رہتا ہوں نغمے کمال کے اندر
کئی صدائیں پرندوں میں ڈال کے اندر
جو واہمے مرا اندر اجاڑ سکتے ہیں
میں رکھ رہا ہوں انہیں بھی سنبھال کے اندر
تمام مسئلے نوعیت سوال کے ہیں
جواب ہوتے ہیں سارے سوال کے اندر
جگہ جگہ پہ کوئی تو ہزارہا نشتر
اتارتا ہے رگ احتمال کے اندر
طرح طرح کے گلاب آتشیں سلاخ کے ساتھ
نکال لاتا ہوں سوراخ ڈال کے اندر
یہ سلسلہ ذرا موقوف ہو تو دیکھوں گا
خیال اور ہیں کتنے خیال کے اندر
تڑپتے رہتے ہیں دل کے نواح میں جاویدؔ
بہت سے اژدہے جیبھیں نکال کے اندر
غزل
میں سنتا رہتا ہوں نغمے کمال کے اندر
اقتدار جاوید