میں سن رہا ہوں جو دنیا سنا رہی ہے مجھے
ہنسی تو اپنی خموشی پہ آ رہی ہے مجھے
مرے وجود کی مٹی میں زر نہیں کوئی
یہ اک چراغ کی لو جگمگا رہی ہے مجھے
یہ کیسے خواب کی خواہش میں گھر سے نکلا ہوں
کہ دن میں چلتے ہوئے نیند آ رہی ہے مجھے
کوئی سہارا مجھے کب سنبھال سکتا ہے
مری زمین اگر ڈگمگا رہی ہے مجھے
میں اس جہان میں خوش ہوں مگر کوئی آواز
نئے جہان کی جانب بلا رہی ہے مجھے
غزل
میں سن رہا ہوں جو دنیا سنا رہی ہے مجھے
افضل گوہر راؤ