EN हिंदी
میں سوچتا تو ہوں لیکن یہ بات کس سے کہوں | شیح شیری
main sochta to hun lekin ye baat kis se kahun

غزل

میں سوچتا تو ہوں لیکن یہ بات کس سے کہوں

اشفاق انجم

;

میں سوچتا تو ہوں لیکن یہ بات کس سے کہوں
وہ آئنہ میں جو اترے تو میں سنور جاؤں

خود اپنے آپ سے وحشت سی ہو رہی ہے مجھے
بچھڑ کے تجھ سے میں اک مستقل عذاب میں ہوں

ہر ایک لمحہ بھنور ہے ہر ایک پل طوفاں
کہاں تک اور میں ساحل کی جستجو میں بڑھوں

مرے وجود نے کیا کیا لباس بدلے ہیں
کہیں چراغ کہیں راستے کا پتھر ہوں

ہوا کے دوش پہ ہوں مثل برگ آوارہ
اب اور کیا کہوں انجمؔ میں اپنا حال زبوں