میں سوچتا تو ہوں لیکن یہ بات کس سے کہوں
وہ آئنہ میں جو اترے تو میں سنور جاؤں
خود اپنے آپ سے وحشت سی ہو رہی ہے مجھے
بچھڑ کے تجھ سے میں اک مستقل عذاب میں ہوں
ہر ایک لمحہ بھنور ہے ہر ایک پل طوفاں
کہاں تک اور میں ساحل کی جستجو میں بڑھوں
مرے وجود نے کیا کیا لباس بدلے ہیں
کہیں چراغ کہیں راستے کا پتھر ہوں
ہوا کے دوش پہ ہوں مثل برگ آوارہ
اب اور کیا کہوں انجمؔ میں اپنا حال زبوں
غزل
میں سوچتا تو ہوں لیکن یہ بات کس سے کہوں
اشفاق انجم