میں سوچتا ہوں کبھی ایسا ہو نہ جائے کہیں
کہ خواب آنکھ میں ہو آنکھ سو نہ جائے کہیں
میں جانتا ہوں بہت روز وہ نہ ٹھہرے گا
مگر اس عرصے میں وہ زہر بو نہ جائے کہیں
جو ایک عکس بنایا تھا پچھلی بارش نے
وہ شکل اب کے سے برسات دھو نہ جائے کہیں
اسے یہ شکوہ کہ میں نے نہ پوچھا حال اس کا
مجھے یہ خوف میں بولا تو رو نہ جائے کہیں
بڑھی جو عمر تو اب تجربہ ستانے لگا
ہے ڈر کہ بوڑھا شجر ہم سے کھو نہ جائے کہیں
بڑوں کے فیض سے حاصل ہے شمسؔ کو یہ کمال
کہ اس کے ساتھ جو آ جائے تو نہ جائے کہیں
غزل
میں سوچتا ہوں کبھی ایسا ہو نہ جائے کہیں
شمس تبریزی