EN हिंदी
میں سوچتا ہوں کبھی ایسا ہو نہ جائے کہیں | شیح شیری
main sochta hun kabhi aisa ho na jae kahin

غزل

میں سوچتا ہوں کبھی ایسا ہو نہ جائے کہیں

شمس تبریزی

;

میں سوچتا ہوں کبھی ایسا ہو نہ جائے کہیں
کہ خواب آنکھ میں ہو آنکھ سو نہ جائے کہیں

میں جانتا ہوں بہت روز وہ نہ ٹھہرے گا
مگر اس عرصے میں وہ زہر بو نہ جائے کہیں

جو ایک عکس بنایا تھا پچھلی بارش نے
وہ شکل اب کے سے برسات دھو نہ جائے کہیں

اسے یہ شکوہ کہ میں نے نہ پوچھا حال اس کا
مجھے یہ خوف میں بولا تو رو نہ جائے کہیں

بڑھی جو عمر تو اب تجربہ ستانے لگا
ہے ڈر کہ بوڑھا شجر ہم سے کھو نہ جائے کہیں

بڑوں کے فیض سے حاصل ہے شمسؔ کو یہ کمال
کہ اس کے ساتھ جو آ جائے تو نہ جائے کہیں