میں سوچتا ہوں اگر اس طرف وہ آ جاتا
چراغ عمر کی لو اک ذرا بڑھا جاتا
عجیب بھول بھلیاں ہے راستہ دل کا
یہاں تو خضر بھی ہوتا تو ڈگمگا جاتا
سو اپنے ہاتھ سے دیں بھی گیا ہے دنیا بھی
کہ اک سرے کو پکڑتے تو دوسرا جاتا
مگر نہیں ہے وہ مصروف ناز اتنا بھی
کبھی کبھی تو کوئی رابطہ کیا جاتا
کبھی وہ پاس بلاتا تو یہ دل درویش
بس اک اشارۂ ابرو پہ جھومتا جاتا
پلٹ رہا ہوں اسی یار مہرباں کی طرف
اب اس قدر بھی نہیں بے وفا ہوا جاتا
پلٹ گیا انہیں قدموں سے آفتاب حسینؔ
کہاں تلک وہی حالات دیکھتا جاتا

غزل
میں سوچتا ہوں اگر اس طرف وہ آ جاتا
آفتاب حسین