EN हिंदी
میں سوچتا ہوں اگر اس طرف وہ آ جاتا | شیح شیری
main sochta hun agar is taraf wo aa jata

غزل

میں سوچتا ہوں اگر اس طرف وہ آ جاتا

آفتاب حسین

;

میں سوچتا ہوں اگر اس طرف وہ آ جاتا
چراغ عمر کی لو اک ذرا بڑھا جاتا

عجیب بھول بھلیاں ہے راستہ دل کا
یہاں تو خضر بھی ہوتا تو ڈگمگا جاتا

سو اپنے ہاتھ سے دیں بھی گیا ہے دنیا بھی
کہ اک سرے کو پکڑتے تو دوسرا جاتا

مگر نہیں ہے وہ مصروف ناز اتنا بھی
کبھی کبھی تو کوئی رابطہ کیا جاتا

کبھی وہ پاس بلاتا تو یہ دل درویش
بس اک اشارۂ ابرو پہ جھومتا جاتا

پلٹ رہا ہوں اسی یار مہرباں کی طرف
اب اس قدر بھی نہیں بے وفا ہوا جاتا

پلٹ گیا انہیں قدموں سے آفتاب حسینؔ
کہاں تلک وہی حالات دیکھتا جاتا