میں سچ تو کہہ دوں پر اس کو کہیں برا نہ لگے
مرے خیال کی یا رب اسے ہوا نہ لگے
عجیب طرز سے اب کے نبھایا الفت کو
وفا جو کی ہے تو اس طرح کہ وفا نہ لگے
درون ذات بسا ہے جہان یادوں کا
وہ دور رہ کے بھی مجھ کو کبھی جدا نہ لگے
کبھی تو کہتا تھا ہر لمحہ تیرے ساتھ ہوں میں
اب ایسے بچھڑا کے اس کا کہیں پتا نہ لگے
طبیب تم کو بھلانے کا کر رہا ہے علاج
مرض ہوا ہے پرانا کوئی دوا نہ لگے
تمہارے واسطے جب جب بڑھایا دست طلب
عجیب بات ہے اس دم دعا دعا نہ لگے
اٹھے نظر سے نہ اس کی فسون پردہ حسن
خطا بھی تجھ سے اگر ہو اسے خطا نہ لگے
یہ تیرا طرز بیاں مشرقوں سا ہے اسریٰؔ
وہ دن نہ آئے کے تجھ کو خدا خدا نہ لگے
غزل
میں سچ تو کہہ دوں پر اس کو کہیں برا نہ لگے
اسریٰ رضوی