میں رنگ آسماں کر کے سنہری چھوڑ دیتا ہوں
وطن کی خاک لے کر ایک مٹھی چھوڑ دیتا ہوں
یہ کیا کم ہے کہ حق خود پرستی چھوڑ دیتا ہوں
تمہارا نام آتا ہے تو کرسی چھوڑ دیتا ہوں
میں روز جشن کی تفصیل لکھ کر رکھ تو لیتا ہوں
مگر اس جشن کی تاریخ خالی چھوڑ دیتا ہوں
بہت مشکل ہے مجھ سے مے پرستی کیسے چھوٹے گی
مگر ہاں آج سے فرقہ پرستی چھوڑ دیتا ہوں
خود اپنے ہاتھ سے رسم وداعی کر تو دی پر اب
کوئی بارات آتی ہے تو بستی چھوڑ دیتا ہوں
تمہارے وصل کا جس دن کوئی امکان ہوتا ہے
میں اس دن روزہ رکھتا ہوں برائی چھوڑ دیتا ہوں
حکومت مل گئی تو ان کا کوچہ چھوٹ جائے گا
اسی نقطے پہ آ کر بادشاہی چھوڑ دیتا ہوں
مبارک ہو تجھے صد آفریں اے شان محرومی
ترے پہلو میں آ کے گھر گرہستی چھوڑ دیتا ہوں
غزل
میں رنگ آسماں کر کے سنہری چھوڑ دیتا ہوں
احمد کمال پروازی