میں راکھ ہوتا گیا اور چراغ جلتا رہا
چراغ جلتا رہا آسماں پگھلتا رہا
میں بوند بوند جلا وصل کے کنارے پر
وہ لہر لہر بدن کروٹیں بدلتا رہا
لگی تھی آگ درختوں کے پار دریا میں
میں دیکھتا رہا اور آفتاب ڈھلتا رہا
بس ایک شام سر دشت کربلا اتری
پھر اس کے بعد گھروں سے علم نکلتا رہا
گلاب بہتا رہا خواہشوں کے پانی میں
ہوائیں چلتی رہیں اور دیا مچلتا رہا
عجب سفر تھا مرے اس کے درمیاں قیصرؔ
غبار اڑتا رہا اور ستارا چلتا رہا
غزل
میں راکھ ہوتا گیا اور چراغ جلتا رہا
نذیر قیصر