میں پرسش غم فرقت کی داد دیتا ہوں
تری لطیف ندامت کی داد دیتا ہوں
ملال ترک مراسم تو کچھ نہیں لیکن
اس احتیاط محبت کی داد دیتا ہوں
کہاں بہشت کہاں زندگی مگر ناصح
میں تیرے حسن عقیدت کی داد دیتا ہوں
تباہیاں بھی محبت کو راس آ نہ سکیں
ستم ظریفیٔ فطرت کی داد دیتا ہوں
او مسکرا کے نگاہوں کو پھیرنے والے
میں تیرے عزم بغاوت کی داد دیتا ہوں
مرے خلوص کو لفظوں سے ناپنے والو
تمہارے حسن بصیرت کی داد دیتا ہوں
کسی سے سنتا ہوں جب دشمنی کا ذکر ارشدؔ
تو دوستوں کی عنایت کی داد دیتا ہوں
غزل
میں پرسش غم فرقت کی داد دیتا ہوں
ارشد صدیقی