EN हिंदी
میں پھر سے ہو جاؤں گا تنہا اک دن | شیح شیری
main phir se ho jaunga tanha ek din

غزل

میں پھر سے ہو جاؤں گا تنہا اک دن

ساقی فاروقی

;

میں پھر سے ہو جاؤں گا تنہا اک دن
بین کرے گا روح کا سناٹا اک دن

جن میں ابھی اک وحشی آگ کے سائے ہیں
وہ آنکھیں ہو جائیں گی صحرا اک دن

بیت چکا ہوگا یہ خوابوں کا موسم
بند ملے گا نیند کا دروازہ اک دن

مٹ جائے گا سحر تمہاری آنکھوں کا
اپنے پاس بلا لے گی دنیا اک دن

ڈوب رہا ہوں جھوٹ اور کھوٹ کے دریا میں
جانے کہاں لے جائے یہ دریا اک دن

میں بھی لوٹ آؤں گا اپنے تعاقب سے
تم بھی مجھ کو ڈھونڈ کے تھک جانا اک دن