میں پس ترک محبت کسی مشکل میں نہیں
دل بھی پہلو میں نہیں درد بھی اب دل میں نہیں
بو الہوس چل دیے سب جان بچا کر اپنی
صرف قاتل ہے کوئی کوچۂ قاتل میں نہیں
وقت مرنے کا جو آئے گا تو مر جاؤں گا
میرے نزدیک یہ مشکل کوئی مشکل میں نہیں
ڈوب کر پار اترتے ہیں اترنے والے
قعر دریا کا مزہ دامن ساحل میں نہیں
بس وہی قہر و غضب بس وہی آزار ستم
لطف کی بات کوئی آپ کی محفل میں نہیں
بھیج کر خط انہیں بلوائیں محبان سخن
کچھ بھی محفل میں نہیں نوحؔ جو محفل میں نہیں
غزل
میں پس ترک محبت کسی مشکل میں نہیں
نوح ناروی