میں پریشاں ہوں ملیں چند نوالے کیسے
اس کو دولت وہ ملی ہے کہ سنبھالے کیسے
انگلیاں اپنی نگینوں سے سجانے والے
تجھ کو لگتے ہیں مرے ہاتھ کے چھالے کیسے
علم سے پھیر لیں تو نے جو نگاہیں اپنی
پھر ترے ذہن میں پھوٹیں گے اجالے کیسے
دیکھتے رہ گئے پانی کی روانی ہم لوگ
راستے لوگوں نے دریا میں نکالے کیسے
عمر لگ جاتی ہے اک گھر کو بنانے میں ہمیں
مکڑیاں روز ہی بن لیتی ہیں جالے کیسے
تو نے اخلاقؔ قسم کھائی تھی ضبط غم کی
پھر یہ پلکوں پہ نمی ہونٹوں پہ نالے کیسے
غزل
میں پریشاں ہوں ملیں چند نوالے کیسے
اخلاق بندوی