میں نے تو اک بات کہی تھی بات کو پھیلایا ہے کتنا
اب میں سمجھا ہوں دنیا نے مجھ کو پہچانا ہے کتنا
جانے کس نے تھپڑ مارا کالے بادل کے چہرے پر
میں نے دیکھا ہے بادل کو غصے میں برسا ہے کتنا
لاٹھی پانی میں ڈالوں تو واپس آتی ہے پانی پر
دریا زور آور ہے کتنا میرا سرمایہ ہے کتنا
کل میں نے کچھ چہرے دیکھے کیفے کے اک لان میں بیٹھے
کیا بتلاؤں مجھ کو اس کا چہرہ یاد آیا ہے کتنا
اس سے مل کر خوش ہوتا ہوں پھر اس سوچ میں کھو جاتا ہوں
باہر سے اجلا ہے کتنا اندر سے کالا ہے کتنا
رامپورؔ جی یہ مت پوچھو دل میرا رونے لگتا ہے
کیا بولوں سوچا ہے کتنا اور اس کو پایا ہے کتنا
غزل
میں نے تو اک بات کہی تھی بات کو پھیلایا ہے کتنا
خلیل رامپوری