EN हिंदी
میں نے تو اک بات کہی تھی بات کو پھیلایا ہے کتنا | شیح شیری
maine to ek baat kahi thi baat ko phailaya hai kitna

غزل

میں نے تو اک بات کہی تھی بات کو پھیلایا ہے کتنا

خلیل رامپوری

;

میں نے تو اک بات کہی تھی بات کو پھیلایا ہے کتنا
اب میں سمجھا ہوں دنیا نے مجھ کو پہچانا ہے کتنا

جانے کس نے تھپڑ مارا کالے بادل کے چہرے پر
میں نے دیکھا ہے بادل کو غصے میں برسا ہے کتنا

لاٹھی پانی میں ڈالوں تو واپس آتی ہے پانی پر
دریا زور آور ہے کتنا میرا سرمایہ ہے کتنا

کل میں نے کچھ چہرے دیکھے کیفے کے اک لان میں بیٹھے
کیا بتلاؤں مجھ کو اس کا چہرہ یاد آیا ہے کتنا

اس سے مل کر خوش ہوتا ہوں پھر اس سوچ میں کھو جاتا ہوں
باہر سے اجلا ہے کتنا اندر سے کالا ہے کتنا

رامپورؔ جی یہ مت پوچھو دل میرا رونے لگتا ہے
کیا بولوں سوچا ہے کتنا اور اس کو پایا ہے کتنا