EN हिंदी
میں نے سوچا تھا اس اجنبی شہر میں زندگی چلتے پھرتے گزر جائے گی | شیح شیری
maine socha tha is ajnabi shahr mein zindagi chalte-phirte guzar jaegi

غزل

میں نے سوچا تھا اس اجنبی شہر میں زندگی چلتے پھرتے گزر جائے گی

رسا چغتائی

;

میں نے سوچا تھا اس اجنبی شہر میں زندگی چلتے پھرتے گزر جائے گی
یہ مگر کیا خبر تھی تعاقب میں ہے ایک نادیدہ زنجیر ہمسائیگی

یہ درختوں کے سائے جو چپ چاپ ہیں ہم محبت زدوں کے یہ ہم راز ہیں
اب یہیں دیکھنا رات پچھلے پہر دو دھڑکتے دلوں کی صدا آئے گی

غم کا سورج ڈھلا درد کا چاند بھی بجھ چلے آنسوؤں کے دئے آج بھی
اور اسی سوچ میں اب سحر آئے گی اب سحر آئے گی اب سحر آئے گی

لاکھ پھولوں پہ پہرے بٹھاتے رہیں لاکھ اونچی فصیلیں اٹھاتے رہیں
جائے گی سوئے گلزار جب بھی صبا اپنی آواز زنجیر پا جائے گی

روشنی شمع کی خود گلو گیر ہے ہنسنا تہذیب ہے جلنا تقدیر ہے
وہ مگر قطرۂ اشک شبنم جسے صبح کی سب سے پہلی کرن پائے گی