میں نے سوچا تھا اس اجنبی شہر میں زندگی چلتے پھرتے گزر جائے گی
یہ مگر کیا خبر تھی تعاقب میں ہے ایک نادیدہ زنجیر ہمسائیگی
یہ درختوں کے سائے جو چپ چاپ ہیں ہم محبت زدوں کے یہ ہم راز ہیں
اب یہیں دیکھنا رات پچھلے پہر دو دھڑکتے دلوں کی صدا آئے گی
غم کا سورج ڈھلا درد کا چاند بھی بجھ چلے آنسوؤں کے دئے آج بھی
اور اسی سوچ میں اب سحر آئے گی اب سحر آئے گی اب سحر آئے گی
لاکھ پھولوں پہ پہرے بٹھاتے رہیں لاکھ اونچی فصیلیں اٹھاتے رہیں
جائے گی سوئے گلزار جب بھی صبا اپنی آواز زنجیر پا جائے گی
روشنی شمع کی خود گلو گیر ہے ہنسنا تہذیب ہے جلنا تقدیر ہے
وہ مگر قطرۂ اشک شبنم جسے صبح کی سب سے پہلی کرن پائے گی
غزل
میں نے سوچا تھا اس اجنبی شہر میں زندگی چلتے پھرتے گزر جائے گی
رسا چغتائی