EN हिंदी
میں نے روکا بہت پر گئے سب کے سب | شیح شیری
maine roka bahut par gae sab ke sab

غزل

میں نے روکا بہت پر گئے سب کے سب

خواجہ جاوید اختر

;

میں نے روکا بہت پر گئے سب کے سب
جانے پھر کیا ہوا ڈر گئے سب کے سب

دوست کیا اب تو دشمن بھی مفقود ہیں
بات کیا ہے کہاں مر گئے سب کے سب

ہر قدم پر زمانہ مخالف رہا
کام اپنا مگر کر گئے سب کے سب

دن میں سورج کے تھے ہم سفر دن ڈھلے
لے کے مایوسیاں گھر گئے سب کے سب

پیڑ سوکھے تھے قدرت بھی تھی مہرباں
آج پھل پھول سے بھر گئے سب کے سب

کیا خطا تھی کسی نے بتایا نہیں
مجھ پہ الزام کیوں دھر گئے سب کے سب

آپ تنہا بچے ہیں مری بزم میں
ورنہ جاویدؔ اختر گئے سب کے سب