میں نے روکا بہت پر گئے سب کے سب
جانے پھر کیا ہوا ڈر گئے سب کے سب
دوست کیا اب تو دشمن بھی مفقود ہیں
بات کیا ہے کہاں مر گئے سب کے سب
ہر قدم پر زمانہ مخالف رہا
کام اپنا مگر کر گئے سب کے سب
دن میں سورج کے تھے ہم سفر دن ڈھلے
لے کے مایوسیاں گھر گئے سب کے سب
پیڑ سوکھے تھے قدرت بھی تھی مہرباں
آج پھل پھول سے بھر گئے سب کے سب
کیا خطا تھی کسی نے بتایا نہیں
مجھ پہ الزام کیوں دھر گئے سب کے سب
آپ تنہا بچے ہیں مری بزم میں
ورنہ جاویدؔ اختر گئے سب کے سب
غزل
میں نے روکا بہت پر گئے سب کے سب
خواجہ جاوید اختر

