میں نے مانا کہ ملاقات نہیں ہو سکتی
تو کیا اب تم سے کوئی بات نہیں ہو سکتی
دل میں روشن ہیں مری جاں تری یادوں کے چراغ
شہر الفت میں کبھی رات نہیں ہو سکتی
باطن قلب و جگر میں ہی بسا لے مجھ کو
ظاہراً گر تو مرے ساتھ نہیں ہو سکتی
اس کا شیوہ ہے محبت میں بغاوت کرنا
معتبر اس کی کبھی ذات نہیں ہو سکتی
عشق کا کھیل بھی یہ سوچ کے میں ہار گیا
سچے عاشق کی کبھی مات نہیں ہو سکتی

غزل
میں نے مانا کہ ملاقات نہیں ہو سکتی
سید محمد عسکری عارف