میں نے کس شوق سے اک عمر غزل خوانی کی
کتنی گہری ہیں لکیریں میری پیشانی کی
وقت ہے میرے تعاقب میں چھپا لے مجھ کو
جوئے کم آب قسم تجھ کو ترے پانی کی
یوں گزرتی ہے رگ و پے سے تری یاد کی لہر
جیسے زنجیر چھنک اٹھتی ہے زندانی کی
اجنبی سے نظر آئے ترے چہرے کے نقوش
جب ترے حسن پہ میں نے نظر ثانی کی
مجھ سے کہتا ہے کوئی آپ پریشان نہ ہوں
مری زلفوں کو تو عادت ہے پریشانی کی
زندگی کیا ہے طلسمات کی وادی کا سفر
پھر بھی فرصت نہیں ملتی مجھے حیرانی کی
وہ بھی تھے ذکر بھی تھا رنگ غزل کا شبنمؔ
پھر تو میں نے سر محفل وہ گل افشانی کی
غزل
میں نے کس شوق سے اک عمر غزل خوانی کی
شبنم رومانی