میں نے کب اپنی وفاؤں کا صلہ مانگا تھا
اک تبسم ہی ترا بہر خدا مانگا تھا
کیا خبر تھی کہ مری نیند ہی اجڑ جائیں گی
میں نے کھوئے ہوئے خوابوں کا پتا مانگا تھا
دست گلچیں نے بھی گلشن سے وہی پھول چنا
میں نے جس گل کے لیے دست صبا مانگا تھا
شدت غم میں دعا کی تھی تجھے بھولنے کی
اب بھرے زخم تو نادم ہوں یہ کیا مانگا تھا
بس اسی بات پہ برہم ہے زمانہ مجھ سے
اپنے بد خواہوں کا بھی میں نے بھلا مانگا تھا
اک گزارش بھی نہ ہو پائی قبول اس کے حضور
غالباً میں نے ہی کچھ حد سے سوا مانگا تھا
چوڑیاں ٹوٹیں تو زخموں سے لہو رنگ ہوئی
جس ہتھیلی نے ذرا رنگ حنا مانگا تھا
تو نے ہر غم سے نوازا ہے ترا خاص کرم
مجھ کو تو یہ بھی نہیں یاد کہ کیا مانگا تھا
آفتیں سہنے کا یارا بھی تو دیتا یار اب
اور تو کچھ بھی نہیں اس کے سوا مانگا تھا
یہ الگ بات ملا کرب مسلسل ورنہ
ہم نے جو مانگا وہ بہ صدق و صفا مانگا تھا
ذہن پر چاندؔ پھر اک برق سی لہرانے لگی
دل نے ماضی کے نہاں خانوں سے کیا مانگا تھا
غزل
میں نے کب اپنی وفاؤں کا صلہ مانگا تھا
مہندر پرتاپ چاند

