میں نے چپ کے اندھیرے میں خود کو رکھا اک فضا کے لیے
حجرۂ ذات میں روشنی لانے والی دعا کے لیے
بے صدا ساعتوں میں سماعت کی رفتار رکنے کو تھی
ایک آہٹ نے مجھ سے کہا جاگ جاؤ خدا کے لیے
ایک دشمن نظر میری نرمی پہ ایمان لانے کو ہے
میں عجب انتہا پر کھڑا ہوں کسی ابتدا کے لیے
کوئی خوش قامتی آئینے کے مقابل سنبھلتی ہوئی
کوئی تدبیر نظارہ سمٹی ہوئی اک ادا کے لیے
ایک حیرت سے لپٹی ہوئی اک سبک دوشیٔ پیرہن
مضطرب ہے اچانک بچھڑ جانے والی حیا کے لیے
اک سفر حوصلے اور خواہش کی تصدیق کرتا ہوا
ایک رستے پہ معدوم ہوتے ہوئے نقش پا کے لیے
میری آنکھیں اور ان میں چمکتے ہوئے مستقل فیصلے
جگمگاتے رہیں گے یونہی آنے والی ہوا کے لیے
اس سے پہلے کہ منزل اندھیروں میں تبدیل ہونے لگے
قافلے سے کہو رہنما ڈھونڈ لے رہنما کے لیے
وسعت آسماں صبح پرواز کا کوئی مژدہ سنا
شاخ حسرت پہ بیٹھے ہوئے طائر بے نوا کے لیے
ایک باغ تعلق کسی چشم حیراں میں آباد ہے
اے خدا اس نظارے کو سرسبز رکھنا سدا کے لیے
عزمؔ اس عرصۂ نا مرادی سے گھبرا کے یہ مت کہو
ایسی بے رنگ سی زندگی کس لیے کس جزا کے لیے
غزل
میں نے چپ کے اندھیرے میں خود کو رکھا اک فضا کے لیے
عزم بہزاد