میں نہ جانا تھا کہ تو یوں بے وفا ہو جائے گا
آشنا ہو اس قدر نا آشنا ہو جائے گا
خوب لگتی ہے اگر بد نامی عاشق تجھے
آہ کرتا ہوں کہ شہرہ جا بجا ہو جائے گا
گر تمہاری دل خوشی ہے ذبح کرنے میں مرے
خوب جی جاوے تو جاوے اور کیا ہو جائے گا
میں سنا ہوں تجھ لبوں کا نام ہی حاجت روا
یک تبسم کر کہ میرا مدعا ہو جائے گا
کیا عجب گر میں ہوا دیوانۂ زلف بتاں
گر فرشتہ ہووے تو ان کا مبتلا ہو جائے گا
میں تمہارے آستانے سیں جدا ہونے کا نہیں
سر اگر شمشیر سیں کٹ کر جدا ہو جائے گا
جیوں سراجؔ اس شمع رو پر دل کوں ہے ملنے کا شوق
فرض عین عاشقی سیں اب ادا ہو جائے گا
غزل
میں نہ جانا تھا کہ تو یوں بے وفا ہو جائے گا
سراج اورنگ آبادی