میں مسرور ہوں اس سے مہجور ہو کر
کہ مجھ سے ملا وہ بہت دور ہو کر
تری شان جدت پسندی کے قرباں
کہ مختار ٹھہرا میں مجبور ہو کر
وہ شکلیں جو دل میں کبھی جلوہ گر تھیں
نظر آئیں برق سر طور ہو کر
اٹھا ڈالے سارے حجابات میں نے
شراب محبت سے مخمور ہو کر
امیدوں کی دنیا نہ ہو جائے ویراں
فریب تجسس نہ دے دور ہو کر
جو ملنا نہ ثاقبؔ سے تم چاہتے تھے
تو کیوں اس کو آواز دی دور ہو کر
غزل
میں مسرور ہوں اس سے مہجور ہو کر
ثاقب کانپوری