EN हिंदी
میں محل ریت کے صحرا میں بنانے بیٹھا | شیح شیری
main mahal ret ke sahra mein banane baiTha

غزل

میں محل ریت کے صحرا میں بنانے بیٹھا

اظہر نیر

;

میں محل ریت کے صحرا میں بنانے بیٹھا
چند الفاظ کو ماضی کے بھلانے بیٹھا

حادثے سے ہی ہوا غم کا مداوا میرے
فلسفہ صبر کا لوگوں کو پڑھانے بیٹھا

تھک کے سائے میں ببولوں کے سکوں جب چاہا
اس کا ہر پتہ مجھے کانٹے لگانے بیٹھا

جس نے توڑا سبھی ناطوں سبھی رشتوں کو مرے
عمر بھر کا وہی اب قرض چکانے بیٹھا

اس کے تلخاب سے کب پیاس مری بجھ پائی
گھر سمندر کے کنارے ہی بسانے بیٹھا

جسم کے بخیے جو ادھڑے تو ادھڑتے ہی رہے
جامہ ریشم کا پہنے کو سلانے بیٹھا

لوگ تھے گرد الاؤ کے مگر میں نیرؔ
جسم کی آگ کو پانی سے بجھانے بیٹھا