EN हिंदी
میں لپٹتا رہا ہوں خاروں سے | شیح شیری
main lipaTta raha hun Khaaron se

غزل

میں لپٹتا رہا ہوں خاروں سے

یوسف ظفر

;

میں لپٹتا رہا ہوں خاروں سے
تم نے پوچھا نہیں بہاروں سے

چاندنی سے سحاب پاروں سے
جی بہلتا ہے یاد گاروں سے

آ مرے چاند رات سونی ہے
بات بنتی نہیں ستاروں سے

منزل زندگی ہے کتنی دور
پوچھ لیتا ہوں رہ گزاروں سے

بات جب بھی چھڑی محبت کی
خامشی بول اٹھی مزاروں سے

ایک بھی آفتاب بن نہ سکا
لاکھ ٹوٹے ہوئے ستاروں سے

شام غم بھی گزر گئی ہے ظفرؔ
کھیلتے کھیلتے غباروں سے