میں لپٹتا رہا ہوں خاروں سے
تم نے پوچھا نہیں بہاروں سے
چاندنی سے سحاب پاروں سے
جی بہلتا ہے یاد گاروں سے
آ مرے چاند رات سونی ہے
بات بنتی نہیں ستاروں سے
منزل زندگی ہے کتنی دور
پوچھ لیتا ہوں رہ گزاروں سے
بات جب بھی چھڑی محبت کی
خامشی بول اٹھی مزاروں سے
ایک بھی آفتاب بن نہ سکا
لاکھ ٹوٹے ہوئے ستاروں سے
شام غم بھی گزر گئی ہے ظفرؔ
کھیلتے کھیلتے غباروں سے

غزل
میں لپٹتا رہا ہوں خاروں سے
یوسف ظفر