میں کیوں زباں سے وفا کا یقیں دلاؤں تمہیں
تم آزماؤ مجھے اور میں آزماؤں تمہیں
میں بھولنے کو تو اک پل میں بھول جاؤں گا
یہ سوچتا ہوں کہیں میں نہ یاد آؤں تمہیں
مری غزل ہے مری کیفیت کا آئینہ
اب اور حال دل زار کیا سناؤں تمہیں
مری طرف سے سدا بد گماں رہے ہو تم
قریب آؤ تو میں کیا ہوں یہ بتاؤں تمہیں
کچھ ایسا لطف ہے اس روٹھنے منانے میں
ہزار بار بھی روٹھو تو میں مناؤں تمہیں
میری نگاہ میں کچھ اس طرح سما جاؤ
نگاہ خود پہ بھی ڈالوں اگر تو پاؤں تمہیں
یہ آرزو ہے مری شاعری میں ڈھل جاؤ
غزل کے روپ میں ہر لمحہ گنگناؤں تمہیں
مجھے یقیں ہے کہ تصویر ان کی پاؤ گے
میں احتشامؔ جو دل چیر کے دکھاؤں تمہیں
غزل
میں کیوں زباں سے وفا کا یقیں دلاؤں تمہیں
قاضی احتشام بچھرونی